Sahih Bukhari 4033, 4034
Sahih Bukhari 4033, 4034 – Read the complete text of Sahih Bukhari 4033, 4034 below. This authentic hadith from Sahih Bukhari is presented in multiple languages for better understanding. Keep reading and share with others, May Allah guide us towards the right path, JazakAllah
Sahih Bukhari 4033, 4034 – English Translation
Once `Umar bin Al-Khattab رضی اللہ عنہ called him and while he was sitting with him, his gatekeeper, Yarfa came and said, "Will you admit `Uthman, `Abdur-Rahman bin `Auf, Az Zubair and Sa`d (bin Abi Waqqas رضی اللہ عنہم ) who are waiting for your permission?" `Umar said, "Yes, let them come in." After a while, Yarfa- came again and said, "Will you admit `Ali رضی اللہ عنہ and `Abbas رضی اللہ عنہ who are asking your permission?" `Umar رضی اللہ عنہ said, "Yes." So, when the two entered, `Abbas رضی اللہ عنہ said, "O chief of the believers! Judge between me and this (i.e. `Ali). "Both of them had a dispute regarding the property of Bani An-Nadir which Allah had given to His Apostle as Fai (i.e. booty gained without fighting), `Ali and `Abbas رضی اللہ عنہ started reproaching each other. The (present) people (i.e. `Uthman and his companions) said, "O chief of the believers! Give your verdict in their case and relieve each from) the other." `Umar رضی اللہ عنہ said, "Wait I beseech you, by Allah, by Whose Permission both the heaven and the earth stand fast! Do you know that Allah's Messenger (ﷺ) said, 'We (Prophets) our properties are not to be inherited, and whatever we leave, is to be spent in charity,' and he said it about himself?" They (i.e. `Uthman and his company) said, "He did say it. "`Umar رضی اللہ عنہ then turned towards `Ali and `Abbas رضی اللہ عنہ and said, "I beseech you both, by Allah! Do you know that Allah's Messenger (ﷺ) said this?" They replied in the affirmative. He said, "Now I am talking to you about this matter. Allah the Glorified favored His Apostle with something of this Fai (i.e. booty won without fighting) which He did not give to anybody else. Allah said:– "And what Allah gave to His Apostle ("Fai"" Booty) from them–For which you made no expedition With either Calvary or camelry. But Allah gives power to His Apostles Over whomsoever He will And Allah is able to do all things." (59.6) So this property was especially granted to Allah's Messenger (ﷺ) . But by Allah, the Prophet (ﷺ) neither took it all for himself only, nor deprived you of it, but he gave it to all of you and distributed it amongst you till only this remained out of it. And from this Allah's Messenger (ﷺ) used to spend the yearly maintenance for his family, and whatever used to remain, he used to spend it where Allah's Property is spent (i.e. in charity), Allah's Messenger (ﷺ) kept on acting like that during all his life, Then he died, and Abu Bakr رضی اللہ عنہ said, 'I am the successor of Allah's Messenger (ﷺ).' So he (i.e. Abu Bakr رضی اللہ عنہ ) took charge of this property and disposed of it in the same manner as Allah's Messenger (ﷺ) used to do, and all of you (at that time) knew all about it." Then `Umar رضی اللہ عنہ turned towards `Ali رضی اللہ عنہ and `Abbas and said, "You both remember that Abu Bakr رضی اللہ عنہ disposed of it in the way you have described and Allah knows that, in that matter, he was sincere, pious, rightly guided and the follower of the right. Then Allah caused Abu Bakr رضی اللہ عنہ to die and I said, 'I am the successor of Allah's Messenger (ﷺ) and Abu Bakr رضی اللہ عنہ .' So I kept this property in my possession for the first two years of my rule (i.e. Caliphate and I used to dispose of it in the same wa as Allah's Messenger (ﷺ) and Abu Bakr رضی اللہ عنہ used to do; and Allah knows that I have been sincere, pious, rightly guided an the follower of the right (in this matte Later on both of you (i.e. `Ali and `Abbas) came to me, and the claim of you both was one and the same, O `Abbas! You also came to me. So I told you both that Allah's Messenger (ﷺ) said, "Our property is not inherited, but whatever we leave is to be given in charity.' Then when I thought that I should better hand over this property to you both or the condition that you will promise and pledge before Allah that you will dispose it off in the same way as Allah's Messenger (ﷺ) and Abu Bakr رضی اللہ عنہ did and as I have done since the beginning of my caliphate or else you should not speak to me (about it).' So, both of you said to me, 'Hand it over to us on this condition.' And on this condition I handed it over to you. Do you want me now to give a decision other than that (decision)? By Allah, with Whose Permission both the sky and the earth stand fast, I will never give any decision other than that (decision) till the Last Hour is established. But if you are unable to manage it (i.e. that property), then return it to me, and I will manage on your behalf." The sub-narrator said, "I told `Urwa bin Az-Zubair of this Hadith and he said, 'Malik bin Aus has told the truth" I heard `Aisha, the wife of the Prophet (ﷺ) saying, 'The wives of the Prophet (ﷺ) sent `Uthman to Abu Bakr رضی اللہ عنہ demanding from him their 1/8 of the Fai which Allah had granted to his Apostle. But I used to oppose them and say to them: Will you not fear Allah? Don't you know that the Prophet used to say: Our property is not inherited, but whatever we leave is to be given in charity? The Prophet (ﷺ) mentioned that regarding himself. He added: 'The family of Muhammad can take their sustenance from this property. So the wives of the Prophet (ﷺ) stopped demanding it when I told them of that.' So, this property (of Sadaqa) was in the hands of `Ali who withheld it from `Abbas and overpowered him. Then it came in the hands of Hasan bin `Ali, then in the hands of Husain bin `Ali, and then in the hands of `Ali bin Husain and Hasan bin Hasan, and each of the last two used to manage it in turn, then it came in the hands of Zaid bin Hasan, and it was truly the Sadaqa of Allah's Apostle ."
Sahih Bukhari 4033, 4034 – Urdu Translation
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تھا۔ ( وہ بھی امیرالمؤمنین ) کی خدمت میں موجود تھے کہ امیرالمؤمنین کے چوکیدار یرفاء آئے اور عرض کیا کہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم اندر آنا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کی طرف سے انہیں اجازت ہے؟ امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ ہاں، انہیں اندر بلا لو۔ تھوڑی دیر بعد یرفاء پھر آئے اور عرض کیا عباس اور علی رضی اللہ عنہما بھی اجازت چاہتے ہیں کیا انہیں اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں، جب یہ بھی دونوں بزرگ اندر تشریف لے آئے تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، امیرالمؤمنین! میرا اور ان ( علی رضی اللہ عنہ ) کا فیصلہ کر دیجئیے۔ وہ دونوں اس جائیداد کے بارے میں جھگڑ رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مال بنو نضیر سے فئے کے طور پر دی تھی۔ اس موقع پر علی اور عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دوسرے کو سخت سست کہا اور ایک دوسرے پر تنقید کی تو حاضرین بولے، امیرالمؤمنین! آپ ان دونوں بزرگوں کا فیصلہ کر دیں تاکہ دونوں میں کوئی جھگڑا نہ رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، جلدی نہ کیجئے۔ میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم انبیاء کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات سے تھی؟ حاضرین بولے کہ جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا، میں آپ دونوں سے بھی اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی؟ ان دونوں بزرگوں نے بھی جواب ہاں میں دیا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، پھر میں آپ لوگوں سے اس معاملہ پر گفتگو کرتا ہوں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال فئے میں سے ( جو بنو نضیر سے ملا تھا ) آپ کو خاص طور پر عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ”بنو نضیر کے مالوں سے جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا ہے تو تم نے اس کے لیے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ ( یعنی جنگ نہیں کی ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”قدیر“ تک۔ تو یہ مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا لیکن اللہ کی قسم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نظر انداز کر کے اپنے لیے اسے مخصوص نہیں فرمایا تھا نہ تم پر اپنی ذات کو ترجیح دی تھی۔ پہلے اس مال میں سے تمہیں دیا اور تم میں اس کی تقسیم کی اور آخر اس فئے میں سے یہ جائیداد بچ گئی۔ پس آپ اپنی ازواج مطہرات کا سالانہ خرچ بھی اسی میں سے نکالتے تھے اور جو کچھ اس میں سے باقی بچتا اسے آپ اللہ تعالیٰ کے مصارف میں خرچ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں یہ جائیداد انہی مصارف میں خرچ کی۔ پھر جب آپ کی وفات ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اسے انہی مصارف میں خرچ کرتے رہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے اور آپ لوگ یہیں موجود تھے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا، جیسا کہ آپ لوگوں کو بھی اس کا اقرار ہے اور اللہ کی قسم کہ وہ اپنے اس طرز عمل میں سچے، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اٹھا لیا، اس لیے میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بنایا گیا ہے۔ چنانچہ میں اس جائیداد پر اپنی خلافت کے دو سالوں سے قابض ہوں اور اسے انہیں مصارف میں صرف کرتا ہوں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بھی اپنے طرز عمل میں سچا، مخلص، صحیح راستے پر اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس آئے ہیں۔ آپ دونوں ایک ہی ہیں اور آپ کا معاملہ بھی ایک ہے۔ پھر آپ میرے پاس آئے۔ آپ کی مراد عباس رضی اللہ عنہ سے تھی۔ تو میں نے آپ دونوں کے سامنے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے تھے کہ ”ہمارا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ پھر جب میرے دل میں آیا کہ وہ جائیداد بطور انتظام میں آپ دونوں کو دے دوں تو میں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ جائیداد آپ کو دے سکتا ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے عہد کی تمام ذمہ داریوں کو آپ پورا کریں۔ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور خود میں نے، جب سے میں خلیفہ بنا ہوں۔ اس جائیداد کے معاملہ میں کس طرز عمل کو اختیار کیا ہوا ہے۔ اگر یہ شرط آپ کو منظور نہ ہو تو پھر مجھ سے اس کے بارے میں آپ لوگ بات نہ کریں۔ آپ لوگوں نے اس پر کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اسی شرط پر وہ جائیداد ہمارے حوالے کر دیں۔ چنانچہ میں نے اسے آپ لوگوں کے حوالے کر دیا۔ کیا آپ حضرات اس کے سوا کوئی اور فیصلہ اس سلسلے میں مجھ سے کروانا چاہتے ہیں؟ اس اللہ کی قسم! جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، قیامت تک میں اس کے سوا کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اگر آپ لوگ ( شرط کے مطابق اس کے انتظام سے ) عاجز ہیں تو وہ جائیداد مجھے واپس کر دیں میں خود اس کا انتظام کروں گا۔ذیلی راوی نے کہا کہ میں نے عروہ بن زبیر سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا کہ مالک بن اوس نے سچ کہا ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ وہ ان سے 1/8 فی کا مطالبہ کریں جو اللہ نے اپنے رسول کو دیا تھا۔ لیکن میں ان کی مخالفت کرتا تھا اور ان سے کہتا تھا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ہمارا مال میراث میں نہیں ملتا، لیکن جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر اپنے بارے میں فرمایا۔ انہوں نے مزید کہا: 'محمد کا خاندان اس جائیداد سے اپنا رزق لے سکتا ہے۔ چنانچہ جب میں نے ان کو یہ بتایا تو ازواج مطہرات نے اس کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا۔ چنانچہ یہ مال (صدقہ) علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا جس نے اسے عباس سے روک لیا اور ان پر غلبہ حاصل کر لیا۔ پھر حسن بن علی کے ہاتھ میں آیا، پھر حسین بن علی کے ہاتھ میں، پھر علی بن حسین اور حسن بن حسن کے ہاتھ میں، اور آخری دو میں سے ہر ایک باری باری اس کا انتظام کیا کرتا تھا۔ پھر زید بن حسن کے ہاتھ میں آیا اور یہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ تھا۔
Sahih Bukhari 4033, 4034 – Arabic Text
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضى الله عنه ـ دَعَاهُ إِذْ جَاءَهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ فَقَالَ نَعَمْ، فَأَدْخِلْهُمْ. فَلَبِثَ قَلِيلاً، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ يَسْتَأْذِنَانِ قَالَ نَعَمْ. فَلَمَّا دَخَلاَ قَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِي الَّذِي أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ بَنِي النَّضِيرِ، فَاسْتَبَّ عَلِيٌّ وَعَبَّاسٌ، فَقَالَ الرَّهْطُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الآخَرِ. فَقَالَ عُمَرُ اتَّئِدُوا، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ". يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ. قَالُوا قَدْ قَالَ ذَلِكَ. فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَبَّاسٍ وَعَلِيٍّ فَقَالَ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَدْ قَالَ ذَلِكَ قَالاَ نَعَمْ. قَالَ فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صلى الله عليه وسلم فِي هَذَا الْفَىْءِ بِشَىْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ فَقَالَ جَلَّ ذِكْرُهُ {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلاَ رِكَابٍ} إِلَى قَوْلِهِ {قَدِيرٌ} فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلاَ اسْتَأْثَرَهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَقَسَمَهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ مِنْهَا، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَيَاتَهُ، ثُمَّ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَقَبَضَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَعَمِلَ فِيهِ بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ. فَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ وَقَالَ تَذْكُرَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ عَمِلَ فِيهِ كَمَا تَقُولاَنِ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهِ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَقُلْتُ أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبِي بَكْرٍ. فَقَبَضْتُهُ سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي أَعْمَلُ فِيهِ بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي فِيهِ صَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي كِلاَكُمَا وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا جَمِيعٌ، فَجِئْتَنِي ـ يَعْنِي عَبَّاسًا ـ فَقُلْتُ لَكُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ". فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا قُلْتُ إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلاَنِ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَأَبُو بَكْرٍ، وَمَا عَمِلْتُ فِيهِ مُذْ وَلِيتُ، وَإِلاَّ فَلاَ تُكَلِّمَانِي، فَقُلْتُمَا ادْفَعْهُ إِلَيْنَا بِذَلِكَ. فَدَفَعْتُهُ إِلَيْكُمَا، أَفَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ لاَ أَقْضِي فِيهِ بِقَضَاءٍ غَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهُ، فَادْفَعَا إِلَىَّ فَأَنَا أَكْفِيكُمَاهُ.قَالَ فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ، عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ فَقَالَ صَدَقَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ، أَنَا سَمِعْتُ عَائِشَةَ ـ رضى الله عنها ـ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم تَقُولُ أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عُثْمَانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ يَسْأَلْنَهُ ثُمُنَهُنَّ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم، فَكُنْتُ أَنَا أَرُدُّهُنَّ، فَقُلْتُ لَهُنَّ أَلاَ تَتَّقِينَ اللَّهَ، أَلَمْ تَعْلَمْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقُولُ " لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ـ يُرِيدُ بِذَلِكَ نَفْسَهُ ـ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم فِي هَذَا الْمَالِ ". فَانْتَهَى أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَى مَا أَخْبَرَتْهُنَّ. قَالَ فَكَانَتْ هَذِهِ الصَّدَقَةُ بِيَدِ عَلِيٍّ، مَنَعَهَا عَلِيٌّ عَبَّاسًا فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا، ثُمَّ كَانَ بِيَدِ حَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، ثُمَّ بِيَدِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ، ثُمَّ بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ وَحَسَنِ بْنِ حَسَنٍ، كِلاَهُمَا كَانَا يَتَدَاوَلاَنِهَا، ثُمَّ بِيَدِ زَيْدِ بْنِ حَسَنٍ، وَهْىَ صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَقًّا.
References and Resources
Learn more about this hadith from trusted sources:
Hadith Image
Share this hadith image – Sahih Bukhari 4033, 4034